آئینے بھی کمال کر چکے ہیں
عکس اس کے جمال کر چکے ہیں
ہم تو اپنا خیال کر چکے ہیں
تیرے غم کا ملال کر چکے ہیں
موج کے سر دھمال کر چکے ہیں
دل کو غم سے حلال کر چکے ہیں
کوئی تو ہو وفا جواب کرے
وہ بیوفا سوال کر چکے ہیں
دوست کے زہرِ طیش پیتے ہیں
عیش خود پر حلال کر چکے ہیں
یہ جو تم پیار پیار کرتے ہو
ہم بھی ایسی مجال کر چکے ہیں
حوصلے کی نہ ہم سے پوچھ کہ ہم
ہی تو ہیں جو مثال کر چکے ہیں
دل کی دھڑکن اگن مگن میں ہے
عشق تیرے جلال کر چکے ہیں
ہم ترے ہجر کی مسافت میں
ہر قدم پر نڈھال کر چکے ہیں
آپ نے اب کے کی ہے شمشیری
ہم تو کب ہی سے ڈھال کر چکے ہیں
اب ملامت سے ڈر بھی کاہے کا
حسرتیں پائمال کر چکے ہیں
یہ ہمیں ہیں جو شہرِ حسن میں بھی
تیرے پہلو جلال کر چکے ہیں
شہرِ حسن