خدا سے جو کیا وعدہ اسے مجھ کو نبھانا تھا
مجھے ہر خواب اپنی آنکھ کو جلتا دکھانا تھا
ہمارے شہر میں ہر چاند کو گرہن ضروری ہے
مگر یہ راز تم نے سب حسینوں کو بتانا تھا
سنا ہر ساز تم نے اس زمانے کا عقیدت سے
جو آہٹ سن نہیں پائے مرے دل کا دھڑکنا تھا
مجھے برسات میں اپنے سبھی آنسو چھپانے تھے
مجھے بارش کے پانی میں سمندر کو بہانا تھا
مرے دل میں لگائے زخم کو وہ دیکھ نا پائیں
وصالِ یار سے پہلے مجھے جگنو بجھانا تھا
مجھے اپنی کسی بھی جیت پر خوشی نہیں ملتی
جو شامل ہی نہیں تھا کھیل میں اس کو ہرانا تھا
میں کاغذ پر بناتی ہوں کسی کی ڈوبتی آنکھیں
اسی کے واسطے اک جھیل کو ہم نے سُکھانا تھا
میں رکھ کر ہاتھ مٹی پر سناتی تھی غزل اپنی
مجھے ہر خاک کے پتلے میں چاہت کو بسانا تھا
ارادہ تھا یہاں سب آشیانے کو جلائیں گے
نہیں تھی شمع جن کے پاس ان کو دل جلانا تھا
یہاں مقصد بھلا کر زندگی کا لوگ جیتے ہیں
تمہیں بس زندگی کو کاٹ کر جنت میں جانا تھا
شاعرہ:اریبہ ایمان