چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا



چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا 

ہم نے بھی کیں درو دیوار سے باتیں کیا کیا 

بات بن آئی ہے پھر سے کہ میرے بارے میں 

اس نے پوچھیں مرے غمخوار سے باتیں کیا کیا 

لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں 

چپ کے پیرائہ اظہار سے باتیں کیا کیا  

کسی سودائ کا قصہ کسی ہر جائی کی بات

لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا 

ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں 

ہاتھ میں ہاتھ لئے یار سے باتیں کیا کیا 

کس کو بکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اس حیلے سے 

ہو گہئں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا 

ہم ہیں خاموش کہ مجبور محبت تھے فراز

ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا


احمد فراز