احوالِ حادثاتِ سفر تم سے کیوں کہوں
کیا منزلیں تھی کیا ہے ڈگر تم سے کیوں کہوں
چیخیں ہیں کچھ گھُٹی سی ہیں کچھ حرف بے صدا
کہنے کو کافی کچھ ہے مگر تم سے کیوں کہوں
ہے میرے دل میں کیا یہ مجھے تم بتاؤ گے ؟
مجھ کو ہے میرے دل کی خبر، تم سے کیوں کہوں
کیا چاہتے ہو،کون ہو، آئے کہاں سے ہو
کیونکر لٹا یہ دل کا نگر تم سے کیوں کہوں
ڈر ہے کہ تم بڑھاؤ گے کچھ اور الجھنیں
لیکن میں اپنے خوف و خطر تم سے کیوں کہوں
کوئی بھی حق نہیں مرے دن رات پر تمہیں
کٹتے ہیں کیسے شام و سحر تم سے کیوں کہوں
تم کو اُدھر یہ شوق، سُنو داستانِ غم
مجھ کو یہ ضد لگی ہے اِدھر، تم سے کیوں کہوں
تم شوق سے بھلے مجھے پتھر پُکار لو
میں جانتی ہوں میں ہوں گہر، تم سے کیوں کہوں
زویا راؤ وفاؔ