کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے

کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے



 کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے

ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے!


کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو‘میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں

”مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے!“


امجد اسلام امجد