سوچتا ہوں کہ تجھے دل سے بھلا دوں لیکن
سوچتا ہوں کہ تجھے دل سے بھلاؤں کیسے
اپنی پھونکوں سے میں شعلوں کو ہوا کیوں دوں
اپنے ہاتھوں سے نشیمن کو جلاؤں کیسے
سوچتا ہوں کہ جسے چاند کہا تھا میں نے
وہ کسی اور کے آنگن میں نکلتا کیوں ہے
جس نے پائی ہے ترے قرب سے دنیائے حیات
وہ تری یاد کے موسم میں اکیلا کیوں ہے
میں نے رکھا تھا دل میں تجھے خدا کے بدلے
تو وہ معبود کہ مسجود پہ مائل ہی نہیں
یا میرے عجزِ محبت میں کمی ہے شاید
یا تیرا ظرف میرے پیار کے قابل ہی نہیں
سوچتا ہوں کہ ترے ہاتھوں ہراؤں تجھ کو
سوچتا ہوں کہ میں شکستوں کو گوارا کر لوں
ایسا کم ظرف ہے دنیا میں پیمبر جس کا
کیوں نا اس دینِ محبت سے کنارہ کر لوں
اور بھی بُت ہیں زمانے میں پرستش کیلئے
واہ اے تخلیق تجھے میں نے تراشا کیوں تھا
روگِ الفت تو کوئی جرم نہیں ہے لیکن
سوچتا ہوں کہ میرا تو ہی مسیحا کیوں تھا
سوچتا ہوں کہ تجھے دل سے بُھلا دوں لیکن
سوچتا ہوں کہ تجھے دل سے بھلاؤں کیسے
خلیل الرحمن قمر