کیسے آئے گا , تیرے خدوخال کا موسم ؟

 

کیسے آئے گا , تیرے خدوخال کا موسم ؟


کیسے آئے گا , تیرے خدوخال کا موسم ؟

قِسمتوں میں لکھا ھے ، جب زوال کا موسم


کِس نے کھیل کھیلا ھے ، کِس نے ہِجر جھیلا ہے ؟

اب گزر گیا جاناں ،  اِس سوال کا موسم


کِس طرح سے ممکن تھا ، ایک شاخ پر کِھلتے

میں کہ ہجر کا لمحہ ، تُو وصال کا موسم


دِل کہ اب تو صحرا ہے ٫ اور ایسے صحرا میں

جانے کب تلک ٹھہرے ، اب ملال کا موسم


آج تلک بھی ٹھہرا ھے دِل کی رہگزاروں پر

تیرے لَمس کا ٫ تیرے خدوخال کا موسم


ہم کبھی تو دیکھیں گے ، وحشتوں کے صحرا میں

اے خدا !!  محبت کے اعتدال کا موسم 


نوشی گیلانی