کالی کالی زلفوں کے پھندے نہ ڈالو
ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
آپ اس طرح تو ہوش اڑایا نہ کیجیے
یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے
نہ چھیڑو ہمیں ہم ستاۓ ہوۓ ہیں
بہت زخم سینے پہ کھائے ہوئے ہیں
ستم گر ہو تم خوب پہچانتے ہیں
تمہاری اداوں کو ہم جانتے ہیں
دغا باز ہو تم ستم ڈھانے والے
فریب محبت میں الجھانے والے
یہ رنگین کہانی تمھی کو مبارک
تمہاری جوانی تمھی کو مبارک
ہماری طرف سے نگاہیں ہٹا لو
ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
مست نگاہوں کی بات چلتی ہے
مہکشی کروٹیں بدلتی ہے
بن سنور کر وہ جب نکلتے ہیں
دلکشی ساتھ ساتھ چلتی ہے
ہار جاتے ہیں جیتنے والے
وہ نظر کیسی چال چلتی ہے
جب ہٹاتے ہیں رخ سے زولفوں کو
چاند ہنستا ہے رات ڈھلتی ہے
بڑا کاش جام توڑ دیتے ہیں
جب نظر سے شراب بدلتی ہے
کیا قیامت ہے ان کی انگڑائی
کھینچ کے گویا کمان چلتی ہے
یو حسینوں کی زولف لہرائے
جیسے ناگن کوئ مچلتی ہے
سنبھالو ذرا اپنا آنچل گلابی
دیکھاو نہ ہنس ہنس کے آنکھیں شرابی
سلوک ان کا دنیا میں اچھا نہیں ہے
حسینوں پہ ہم کو بھروسہ نہیں ہے
اٹھاتے ہیں نظریں تو گرتی ہے بجلی
ادا جو بھی نکلی قیامت ہی نکلی
جہاں تم نے چہرے سے آنچل ہٹایا
وہی اہل دل کو تماشہ بنایا
خدا کے لیے ہم پر ڈورے نہ ڈالو
ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو
صدا وار کرتے ہو تیغی جوان کا
بہاتے ہو تم خون اہل وفا کا
یہ ناگن سی زلفیں یہ ذہریلی نظریں
وہ پانی نہ مانگے یہ جس کو بھی کاٹ لیں
وہ لٹ جائے جو تم سے دل کو لگا لیں
پھرے حسرتوں کا جنازہ اٹھائے
ہے معلوم ہم کو تمھاری حقیقت
محبت کے پردے میں کرتے ہو نفرت
کہیں اور جا کے ادایئں اچھالو
بری نظامی