مجھ کو لگا جُنوں کے پَر، عشق سے ہم کلام کر
چاند اُفق پہ آئے جب، وحشتِ دل! خِرام کر
ایک سرائے غم کی ہے، جس کا یہ ہے مطالبہ
دن میں کہیں بھی رہ مگر، شب میں یہاں قیام کر
اب تو معاملے میں ہے فتح و شکست کا سا رنگ
جسم کی سلطنت نہ سونپ، دل بھی ہمارے نام کر
شعر و سخن کا کاروبار دیتا نہیں ہے نفعِ زر
تو بھی ہوا کے رُخ پہ ہو، تُو بھی تو کوئی کام کر
عشق سے لو لگا کے جی، جذب کا ایک گھونٹ پی
ساری جفائیں بخش دے، رسمِ وفا کو عام کر
فکرِ معاش میں تجھے تج ہی دیا، یہ کیا کِیا!
اے غمِ دوست آ ادھر، دل میں مرے قیام کر
سارے جہاں سے بےخبر، یوں بھی اِدھر کو آ کبھی
اپنی ہنسی سے دن نکال، اپنی خوشی سے شام کر
اب تو وہ دن ہی ڈھل گئے، اب تو وہ راتیں جا چکی
اب تو بکھر گئی ہے بزم، اب تو سخن تمام کر
تاکہ ترا سخن صفیؔ واقفِ سوز و ساز ہو
جامۂ خُسروَی پہن ،میر ؒ کو جا سلام کر
(صفی ربّانی)