وہ اجنبی تھا غیر تھا، کسی نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا
ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی
کچھ اس لئے بھی کم نگہی کا گلہ نہ تھا
دست خیال یار سے پھوٹے شفق کے رنگ
نقش قدم بھی رنگ حنا کےسوا نہ تھے
ڈھونڈا اسے بہت کہ بلایا تھا جس نے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا
کچھ اس قدر تھی گرمی بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا
آنکھیں ابل رہی ہیں بہ آیں ضبط درد غم
دل میں بجز حرارت غم کچھ رہا نہ تھا
کچھ یوں بھی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
کشور ناہید