مجھکو اس درد کی گہرائی میں اتر جانے دے


مجھکو اس درد کی گہرائی میں اتر جانے دے

کانچ ہوں مجھ کو زمیں پر تو بکھر جانے دے


زندہ ہیں جب تک لیتے ہی رہیں گے سانسیں 

ہم سے لوگوں کو ترے ہجر میں مر جانے دے 


ایک لاشہ ہوں تری فرقت نے دیئے وہ صدمے

درد اتنا ہے کہ اسے حد سے گزر جانے دے


تو اٹھاتا جو نہیں ناز تو پھر ایسا کر 

سوکھے پتوں کی طرح مجھکو بکھر جانے دے 


کس قدر سادگی میں ہم نے گزاری ہے حیات 

آئینہ دیکھ مجھے اب تو سنور جانے دے


معاف خود کو کر نہ پائیں گی دیکھ لینا تم

خلیل اک بار وہ آنکھوں کو مکر جانے دے 


خلیل احمد خلیل