دَرپردہ جفاؤں کو، اگر مان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا، کہ بُرا مان گئے ہم
اب اور ہی عالم ہے، جہاں کا دلِ ناداں
اب ہوش میں آئے تو، میری جان گئے ہم
پلکوں پہ لرزتے ہوئے، تارے سے آنسو
اے حُسنِ پشیماں، تیرے قُربان گئے ہم
ہم اور تیرے حُسنِ تغافل سے بِگڑتے
جب تُو نے کہا، مان گئے مان گئے ہم
بدلا ہے مگر بھیس، غمِ عشق کا تُو نے
بس اے غمِ دوراں، تجھے پہچان گئے ہم
ہے سیفؔ! بس اتنا ہی تو افسانۂ ہستی
آئے تھے پریشان، پریشان گئے ہم
سیف الدین سیفؔ
read more
چھوڑ دو گے ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا
our