چھوڑ دو گے ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا

چھوڑ دو گے ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا

 شاعر۔پیر نصیرالدین نصیر


چھوڑ دو گے ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا

یوں تمہیں مل جائے گا، اپنوں کو تڑپانے سے کیا


لاکھ سمجھاو مگر ہوتا ہے سمجھانے سے کیا

ہوش کی بات کرو، الجھو گے دیوانے سے کیا


آپ کی باتیں سنیں واعظ! مگر مانیں نہیں

چوٹ کھاتا، آپ جیسے جانے پہچانے سے کیا


رقص کے عالم میں ہو جیسے سارا میکدہ

آنکھ ساقی نے ملا رکھی ہے پیمانے سے کیا


خیر، ہم نے مان لی جو بات بھی تم نے کہی

تم کہو، تم کو ملا جھوٹی قسم کھانے سے کیا؟


سامنے جب آگئے کیسی حیا، کیسا حجاب

فائدہ اب منہ چھپانے اور شرمانے سے کیا


ترک الفت، اور پھر الفت بھی اس بے مثل کی

میں بہک جاوں گا واعظ! تیرے بہکانے سے کیا


چارہ سازو! کیوں دوا کرتے ہو، مرجانے بھی دو

بزم ہو جائے گی سونی میرے اٹھ جانے سے کیا 


مے کشی لازم نہیں ہے بزم ساقی میں "نصیر"

کام جب آنکھوں سے چل جائے تو پیمانے سے کیا!


پیر نصیرالدین نصیر