سامنے سے میرے کترا کے گئے ہیں ایسے

سامنے سے میرے کترا  کے  گئے  ہیں  ایسے

 سامنے سے میرے کترا  کے  گئے  ہیں  ایسے

میں نے دیکھا نہیں جاتےهوئے ان کو جیسے


مشورے دیتے رھےجو مجھےمخلص کی طرح

کیا کہوں ان سے بھی کھاتا رہا دھوکے کیسے


بیچ دو سارا جہاں بھی، تو نہیں بھر سکتا

میرے کشکول میں آ سکتے ہیں اتنے پیسے


اپنے قاتل بھی حقیقت میں وہی ہوتے ہیں

کام لیتے  ہیں لہو  کا  جو  شرابی  مَے سے


ایک  مدت  میں  پرکھنے  کا  ہنر  آتا  ھے

بےوفا کہہ دوں اسے پہلی نظر میں کیسے


قیمتی لعل بھی ، گدڑی میں ھوا کرتے ہیں

ایسوں ویسوں کوسمجھنا نہیں ایسے ویسے