. جمال دلنشیں ترا ، مرا یہ مقتضائے دل
نہ دل کی آرزو ہو کیوں کہ ہو ترا نقاب گم
وہ جلوتیں بکھیر دے بساط گلستان میں
. کلی کی گم رہے نفس ، ہو رنگ ہر گلاب گم
دوائے روح بے سکوں ، کلام انبگیں خصال
سرور نئے سے ہے جدا ، تو ساز سے رباب گم
کہاں کہاں لہو گرا ، ہے ٹھوکروں کا کیا حساب
تمہارے دشت عشق میں ، ہوئے ہیں بے حساب گم
بروئے عاشقان زار ، کبھی تو رونما بھی ہو
ہو شب سے ماہ کو فرار ، سحر سے آفتاب گم
طلب ، امید ، آرزو کریں بھی زندگی سے کیا
بچا تھا جو وہ غتربود ، جو تھا بھی دستیاب گم
امین دلفگار سے سوال اب یہ کیا کریں
لٹا کے مستیاں تری ، کہاں ہوا شباب گم
امین چغتائ