جو دستِ تہی آج بنا دستِ دعا ہے
وجدان یہ کہتا ہے مجھے میرا خدا ہے
کس کشورِ غم کیش میں پیدا کیا مجھ کو
شاید میرے ناکردہ گناہوں کی سزا ہے
اب جُرم کو یہ جُرم سمجھتے ہی نہیں ہیں
ہر جُرم کو کہتے ہیں کہ یہ جُرم روا ہے
بہتر ہے کہ ہم خواہشِ دُنیا سے رہیں دُور
ظاہر میں جو اچھّا ہے، وہ باطن میں بُرا ہے
ڈرتا ہوں نہ بہہ جاۓ فلک اشکِ رواں میں
ہر قطرۂ خونیں میرا سیلابِ بلا ہے
شُعلے بھی لرزنے لگے اِس دُودِ فغاں سے
یہ کیسا دھواں سینۂ بِسمل سے اُٹھا ہے
مَیں جعفری آوازِ غریبانِ وطن ہوں
جو بانگِ جرس ہے ، وہ مرے دل کی صدا ہے
ڈاکٹر مقصود جعفری