تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے

ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے


دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب

زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے


کم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق

کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے


لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے

ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے


دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ

اور کچھ دن غم ہستی سے نباہے جاتے


شان الحق حقی