نہ تم آئے شب وعدہ،پریشاں رات بھر رکھا
دیا امید کا میں نے،جلائے تا سحر رکھا
کیا کم ھر ایک،تیری درد کی خیرات کے قآبل
کرم تیرا کہ تونے،مجھ کو برباد نظر رکھا
غم دنیا و مافیھا کو،رخصت کر دیا میں نے
اک تیرا غم،جسے دل سے لگائے،عمر بھر رکھا
سنا تھا کہ کھل گئے تھے گیسو،ڈیر گلشن میں
آے صبا،برا ھو تیرا،کہ تونے مجھ کو بے خبر رکھا
یہ اسکے فیصلے ہیں،جس کے حق میں جو بھی کر ڈالے
کسی کو کر لیا اپنا،کسی کو دربہ در رکھا
کبھی وہ گزرے تو،شائد ایک جھلک دیکھ لوں اںکو
اسی امید پر مدفن،قریب راہ گذر رکھا
ھائے،اس۔ بھری محفل میں ناحق،راز الفت کر دیا افشاں
محبت کا بھرم تو نے،کچھ ایسےچشم تر رکھا
جو خط اوروں کے ائے،انہیں دیکھا دیر تک تو نے
میرا خط ھاتھ میں لیکر،ادھر دیکھا ادھر رکھا
کوئی اس طائر مجبور کی،بے چارگی کو دیکھے
قفس میں بھی صیاد نے جسے،،بے بال و پر رکھا
ضبط کرتا ھون تو گھٹتا سانس میرا ھر دم
اہ بھی کرتا ھوں ،تو صیاد ،خفا ھوتا ہے۔۔۔سحر