چہرہ کوئی بو آنکھ میں تھہر ا نہ پھر کبھی
دل نے کسی بھی شخص کو چاہا نہ پھر کبھی
روٹھا ذرا سی بات پہ اٹھ کے چلا گیا
ایسا لگا کہ لوٹ کے آ یا نہ پھر کبھی
کچھ یوں ملا تپاك سے بس عشق ہو گیا
وہ اجنبی تھا کون تھا سوچا نہ پھر کبھی
اس نے بطور تحفہ دیا تھا لباس ہجر
پہنا جو ایک بار اتارا نہ پھر کبھی
دولت ملی تو چھن گئی احساس کی قبا
اس نے مرا مزاج میں پوچھا نہ پھر کبھی
نازش گزر چکا تھا حد ا عتد ال سے
جانے کہاں گیا اسے دیکھا نہ پھر کبھی ۔۔
شبیر ناز ش۔۔