سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم

تاریکیوں میں پھر بھی اتارے گئے ہیں ہم


راس آ سکی نہ ہم کو ہوا تیرے شہر کی

یوں تو قدم قدم پہ سنوارے گئے ہیں ہم


کچھ قہقہوں کے ابرِ رواں نے دیا نکھار

کچھ غم کی دھوپ سے بھی نکھارے گئے ہیں ہم


جانا محال تھا تری محفل کو چھوڑ کر

پا کر تری نظر کے اشارے، گئے ہیں ہم


اِس سلسلے میں موت تو بدنام ہے یونہی

اِس زندگی کے ہاتھوں ہی مارے گئے ہیں ہم


گردابِ غم میں ڈوب کے ابھرے ہیں بارہا

کس نے کہا کنارے کنارے گئے ہیں ہم ؟


@everyone