یہ جسم و روح بھی جلتے ہیں خواب جلتے ہیں

یہ جسم و روح بھی جلتے ہیں خواب جلتے ہیں

 یہ جسم و روح بھی جلتے ہیں خواب جلتے ہیں 

غموں کی آگ سے ہم بھی جناب جلتے ہیں 

چلی ہیں ایسی ہوا ئیں کہ موسم گل میں 

چمن اداس ہے دل کش گلاب جلتے ہیں 

سکون دیتی ہے ان کو ہماری بر بادی 

ہماری خو شبو و ں سے خانہ خراب جلتے ہیں 

کیا ہے اس طرح برباد وحشتوں نے مجھے 

وفا و پیار کے سارے نصاب جلتے ہیں 

بس اس کی یادوں پہ ہی منحصر نہیں ہے سحر 

کتاب زیسٹ کے سارے ہی باب جلتے ہیں 

محمد علی سحر