اب تری شامیں کہاں، کس کی اماں میں ہوں گی
مشکلیں کچھ تو کرائے کے مکاں میں ہوں گی
ہاتھ پر چھالے بنے ہوئے ہیں کوزہ گر کے
مورتیں کیسی ہوں گی، اب جو بتاں میں ہوں گی
آج کوئی نہ کرے ہم سے زمانے کی بات
آج سب باتیں محبت کی زباں میں ہوں گی
تو ابھی بیٹھ گیا آگ جلانے کے لئے
شاخیں پیڑوں سے جدا جا کہ خزاں میں ہوں گی
چوڑیاں بیٹی کے ہاتھوں میں ہوں نا ہوں لیکن
چوڑیاں بیچنے کو اُس کی دکاں میں ہوں گی
وہ اکیلی ہی نہیں مان، خدا کی قدرت
اور بھی چھ ہیں کسی اور جہاں میں ہوں گی
جس نظر سے وہ مجھے دیکھ رہا ہے عمران
کیسی باتیں ہوں گی، جو وہم و گماں میں ہوں گی
محمد عمران بشیر