غزل
شکستہ پا جزیرےچھان بیٹھے
نہیں ہم سا ہے وہ بھی مان بیٹھے
کہاں ممکن خدارا ڈھونڈنا تھا
مگر پھر بھی مجھے پہچان بیٹھے
عجب لت لگ گئی شاید زمانہ
غمِ دوراں! حقیقت مان بیٹھے
مکاں سے لامکاں تک ہو رسائی
لگا لَو رَب سے گر انسان بیٹھے
اگر قیمت لگائیں دنیا والے
ہزاروں میں تری مسکان بیٹھے
ہلیں جب ہونٹ اس کے تو یہ وللہ
مکمل طور پر ہر تان بیٹھے
تجھی پر اک اشارہ کرنے والے
دل و جاں کو ہے کر قربان بیٹھے
جدھر بیٹھے جہاں بیٹھے وہ صائم
میں بس اتنا کہوں گا آن بیٹھے
عابد حسین صائم