ہر ادا ان کی حریف شب تنہائی ہے

ہر ادا ان کی حریف شب تنہائی ہے



 ہر ادا ان کی حریف شب تنہائی ہے 


وقت حالات کا خاموش تماشائی ہے 


حسن بے پردہ ہے اور چشم تماشائی ہے 


آج دنیائے محبت میں بہار آئی ہے 


اس طرح نظروں سے دل ملتا ہے دل سے نظریں 


جیسے ان دونوں میں مدت سے شناسائی ہے 


عافیت سوز جنوں انجمن آرا ہے ادھر 


اپنے جلووں میں ادھر عالم تنہائی ہے 


آنکھ ملتے ہوئے اور خواب سے اٹھنے والے 


جان لے لی مری یہ بھی کوئی انگڑائی ہے 


زندگی میں بھی رہی ساتھ رفیقوں کی طرح 


بعد مرنے کے بھی مونس شب تنہائی ہے 


دیکھیے اب نہ کہیں عہد وفا کا ٹوٹے 


آپ نے اپنی جوانی کی قسم کھائی ہے 


راہ لگ اپنی تو اے جوش بہار امید 


دل کو مرغوب مرے عالم تنہائی ہے


شاعر اسلم لکھنوی