اوڑھ لے پھر کوئی مجھے کمبل کی طرح

 

اوڑھ لے پھر کوئی مجھے کمبل کی طرح


اوڑھ لے پھر کوئی مجھے کمبل کی طرح

سی دے بخئے ادھڑا ھوں ململ کی طرح


سایہ بن کر ہی ٹھہر جا میرے آشیانے پر

برس جا مجھ پہ تو کسی بادل کی طرح


یا تو جل کر بھسم ھو کسی ویرانے میں 

یا تو ٹکرا کسی شعلے سے پاگل کی طرح


چبھو دے خار ہی پہلو میں تو مثل خنجر  

یا سنا دے گیت بہاروں کے بلبل کی طرح


رقص کر آخری سا کوئی چور چور ھو جا

کر دے مد ھوش کسی مرغ بسمل کیطرح


بنا دے سچ ہی مرا کہ صنم خدا ہو جیسے

یا مٹا دے ہستی سے حرف باطل کی طرح


قیصر مختار