یہ نگہتوں کی نرم رَوی، یہ ہوا، یہ رات
یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات
مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات
اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات
ہم اہلِ انتظار کے آہٹ پہ کان تھے
ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا ڈھل چلی تھی رات
یوں تو بچی بچی سی اُٹھی وہ نگاہِ ناز
دنیائے دل میں ہو ہی گئی کوئی واردات
ہر سعی و ہر عمل میں محبت کا ہاتھ ہے
تعمیرِ زندگی کے سمجھ کچھ محرکات
دریا کے مدو جزر بھی پانی کے کھیل ہیں
ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات
اہلِ رضا میں شانِ بغاوت بھی ہو ذرا
اتنی بھی زندگی نہ ہو پابندِ رسمیات
اُٹھ بندگی سے مالکِ تقدیر بن کے دیکھ
کیا وسوسہ عذاب کا کیا کاوشِ نجات
مجھ کو تو غم نے فرصتِ غم بھی نہ دی فراقؔ
دے فرصتِ حیات نہ جیسے غمِ حیات
فراق گوکھپوری