تھپکیاں دے کے جو ارمانوں کو بہلاتے ہیں
لذّت زیست وہ بد بخت کہاں پاتے ہیں
ایسے ملنے سے نہ ملنا ہی کہیں بہتر ہے
لوگ ملتے ہیں مگر مِل کے بچھڑ جاتے ہیں
نامہ بر خود ہی نہ لکھ کر کہیں لے آتا ہو
اُن کے یہ نامے جو اکثر مرے نام آتے ہیں
تری زُلفوں کی گھنی چھاؤں نہ ہو جن کو نصیب
پسِ دیوار ترے کُوچے میں سستاتے ہیں
کیسی دُنیا میں بسے جاتے ہیں جاں سے پیارے
چھوڑ کر دُنیا کو جو سُوۓ عدم جاتے ہیں
اپنے ساۓ سے بھی جن لوگوں کو ڈر لگتا ہو
پُوچھتے کیا ہو کہ کیوں موت سے گھبراتے ہیں؟
جعفری اشک مرے شُعلہ بہ داماں نکلے
فُرقتِ یار میں چنگاریاں سُلگاتے ہیں
ڈاکٹر مقصود جعفری