اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئ ہے کہ تسکین کی ساعت آئ
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
دل شکستہ تو کئ بار ہوآ ہے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر اک شاخِ بدن ٹوٹی ہے
اتنی بے ربط محبّت بھی کہاں تھی اپنی
درمیاں سے کہیں زنجیرِ سْخن ٹوٹی ہے
سلسلہ تجھ سے بچھڑنے کا کہاں ختم ہوا
ایک زمانے سے راہ و رسم و کہْن ٹوٹی ہے
میرے یاروں کے تبسّم کی کرن مقتل میں
نوکِِ نیزہ کی طرح زیرِِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ میری سنگینۓ فن ٹوٹی ہے
محسن نقویread more
اِک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پُوچھئے
our