سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں



 سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے ربط ھے اُس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں

سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی

سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں

سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے

سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے

read more

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

our