سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں​

سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں​

 

سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہُنر یار کے رکھ دیتے ہیں
ذکرِ جاناں میں___ یہ دنیا کو کہاں لے آئے

لوگ کیوں مسٔلے بیکار کے رکھ دیتے ہیں

شاید آ جائیں کبھی چشمِ خریدار میں ہم

جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں

اب کسے رنجِ اسیری کہ قفس میں صیاد

سارے منظر گُل و گُلزار کے رکھ دیتے ہیں

وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہلِ دل بھی

طاقِ نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں

زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجئے

لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں

ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ

جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے

ahmed faraz

read more

میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے

our