نظر کا تیر ہے دل کے کماں میں رہتا ہے

نظر کا تیر ہے  دل کے کماں میں رہتا ہے



 نظر کا تیر ہے  دل کے کماں میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پیوست جاں میں رہتا ہے

وہ  آشنا  ہے  مگر  ناشناس  پیکر  سا

یقین ہو کے بھی  وہم و گماں میں رہتا ہے

دعائیں دیتے ہیں آنسو اسے کہ وہ میرے 

کبھی فغاں  کبھی طرزِ فغاں میں رہتا ہے

مرے خیال کی الجھی گلی ۔ ہے گھر اس کا

مرے وجود کے خالی مکاں میں رہتا ہے

اسے نہ ڈھونڈ  تری جستجو ہے لاحاصل

وہ فلسفہ ہے مری داستاں میں رہتا ہے

وہ اک ستارہ ہے میرے نصیب کا اکمل

مرے مدار  مرے آسماں میں رہتا ہے

ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮬﮯﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮑﻮ 

ﺧﻮﺩ ﺳﮯﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﮭﮯﺟﺲ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﮞ ﺭﮨﺘﺎ ﮬﮯ

ﯾﻮﮞ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮬﮯﻣﺮﮮﺳﺮ ﭘﮧ ﻣﺴﻠﺴﻞ 

ﺟﯿﺴﮯﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﻮﺉ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﮞ ﺭﮨﺘﺎﮬﮯ

read more

شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے

our