ورق ورق میں سخن کے یہ خواب لکھتی ہوں

اے تیرے نام محبت اداب لکھتی ہوں 


  میں سچ سوا  نہ ذرا کچھ جناب لکھتی ہوں

خودی میں عشق کو میں الکتاب لکھتی ہوں


خراب لکھتی ہوں ہاں ہاں سراب لکھتی ہوں

یہ زندگی ہے جسے میں عذاب لکھتی ہوں 


پلک سے ٹوٹے کو  پی لوں ثواب لکھتی ہوں

یہ تیری آنکھ کی چھلکی شراب لکھتی ہوں 


ہمیشہ ہی سے وہ  آنکھیں سوال کرتی ہیں

میں مسکراتی ہوں آنکھیں جواب لکھتی ہوں 


چناب تیر کے بھی لوگ سرخرو نہ ہوئے

گئے جو  ڈوب انہیں  کامیاب لکھتی ہوں 


  سوالیہ نشاں اس نے مجھے لکھا خط میں 

میں سوچ سوچ کے سو سو جواب لکھتی ہوں  


اندھیرا ہے وہ جسے روشنی نہیں ملتی 

چمکنے والے تجھے ماہِ تاب لکھتی ہوں 


یہ تیرے حُسن  کا چرچا یہ سحر شہرو جی

میں دیکھ سُن کے تجھے آفتاب لکھتی ہوں 


شہرِ حسن