غزل


ملنے آؤ گے مجھے تم جو  اگر شام کے بعد

کون کاٹے گا شبِ وصل سفر شام کے بعد


اپنی آنکھوں کا سمندر نہ بہاؤں جب تک

ڈوب جاتا ہے مکینوں کا نگر شام کے بعد


تو بھی افسردہ سا رہتا ہے مرے دل کے مکیں

روز ملتی ہے مجھے تیری خبر شام کے بعد


جس طرح رات کی تنہائی میں میں دیکھتا ہوں

کون دیکھے گا اسے ایک نظر شام کے بعد


تیرا کیا لگتا ہے رشتے میں مرے چاند بتا

روز جاتا ہے جسے ملنے اُدھر شام کے بعد


تیرے حصے میں پرندوں کے سُریلے سُر ہیں

میرے حصے میں تو آیا ہے شجر شام کے بعد


جس گھڑی پاس نہیں ہوتے مرے صائم تم

سونا لگتا ہے مجھے اپنا ہی گھر شام کے بعد


عابد حسین صائم