فضا بھی ہے جواں جواں

ہوا بھی ہے رواں رواں

سنا رہا ہے یہ سماں

سنی سنی سی داستاں


پکارتے ہیں دور سے وہ قافلے بہار کے

بکھر گئے ہیں رنگ سے، کسی کے انتظار کے

لہر لہر کے ہونٹ پر وفا کی ہیں کہانیاں


بجھی مگر بجھی نہیں، نہ جانے کیسی پیاس ہے

قرار دل سے آج بھی، نہ دور ہے نہ پاس ہے

یہ کھیل دھوپ چھاؤں کا، یہ قربتیں یہ دوریاں


ہر ایک پل کو ڈھونڈتا، ہر ایک پل چلا گیا

ہر ایک پل فراق کا، ہر ایک پل وصال کا

ہر ایک پل گزر گیا، بنا کے دل پے ایک نشاں


حسن کمال