زیرو زبر وہ پیش وہ حرکت کہاں گئی
تحریر خط میں جو تھی عبارت کہاں گئی
وہ شوق دید یار کی چاہت کہاں گٸی
”شوریدگیء عشق کی لذت کہاں گٸی“
اک پل بھی تیرے ہاتھ میں باقی نہیں رہا
جھوٹی وہ شان عارضی شہرت کہاں گئی
اب سیدھے منہ سے بات بھی کرتا نہیں کوئی
شفقت وہ پیار اور مروت کہاں گئی
اک عمر کیا ڈھلی تری دنیا بدل گئی رہتی جو عاشقوں کی تھی کثرت، کہاں گئی
حکمِ خدا بغیر تو کچھ بھی نہ کر سکے
واعظ ترے وہ علم کی طاقت کہاں گئی
دیکھا کسی حسیں کو تو پاؤں پھسل گئے
زاہد بتاؤ تیری شرافت کہاں گئی