اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے 

تیرا مُجرِم ہُوں مُجھے ڈُوب کے مر جانے دے


اے نئے دوست میں سمجھُوں گا تُجھے بھی اپنا 

پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے


زخم کِتنے تِری چاہت سے مِلے ہیں مُجھ کو 

سوچتا ہُوں کہ کہوں تُجھ سے مگر جانے دے


آگ دُنیا کی لگائی ہُوئی بُجھ جائے گی 

کوئی آنسو مِرے دامن پہ بِکھر جانے دے


ساتھ چلنا ہے تو پِھر چھوڑ دے ساری دُنیا 

چل نہ پائے تو مُجھے لوٹ کے گھر جانے دے


زِندگی مَیں نے اُسے کیسے پِرویا تھا نہ سوچ 

ہار ٹوٹا ہے تو موتی بھی بِکھر جانے دے


اِن اندھیروں سے ہی سُورج کبھی نکلے گا نظیرؔ 

رات کے سائے ذرا اور نِکھر جانے دے


نظیرؔ باقری