میرے سنگھار کو مرے دل کے قرار کو
روئے ہے یہ بہار دلِ داغ دار کو
اے کاش چین آ پڑے سب انتظار کو
دے عقل کوئی ہاے دلِ بے قرار کو
اے دیکھ تو سہی مرے لیل و نہار کو
تیری نظر کی بخش دے میرے مزار کو
آنکھیں نکال دے رہی ہوں انتظار کو
دوزخ میں جھونک آئی ہوں دل کے قرار کو
اک حرص آگے ہم نے بڑھائے نہیں قدم
یہ ہم کہ پیچھے بھاگے ہیں دنیا شکار کو
موسم ہے میرے من کا وے منوا تری لگن
دیکھوں ہوں چشمِ تر ہی سے ابرِ بہار کو
کامل ہے عشق میرا سخن میں میں شہ پری
سب بحر چھیڑتی ہوں ترنم کے تار کو
میں رمز ہوں سخن کی، سخن میری موج ہے
میکش ہی کوئی جانے ہے میرے خمار کو
حضرت تو خیر ہی سے یاں کے شیخ صاب ہیں
سینے سے کیوں لگائیں کسی بادہ خوار کو
میں واقفِ مزاج ہوں دنیا مزاج سے
مانے بھی کیوں مزاج یہ دنیا شعار کو
وے حسن لا زوال ہے صورت سے مہ جبیں
اے کاش دل بھی ہوتا مرے ہوشیار کو
اس عشق کے جلال، میں صدقے ملال پر
حورانِ خلد تک رہیں میرے سنگھار کو
وہ آہِ بے کساں ہے کہ دشت و دیار میں
شرما رہی ہے وقت کی ہر اک بہار کو
شہرِ حسن