سنو !
فقط اک انتظار ہے اس جیون میں
انتظار جو کبھی ختم نہیں ہوتا
عذاب بچھڑنے کے کرب کا معلوم ہے
جب انتظار میں ڈھل جاتا ہے
تو کس قدر گھٹن زدہ یہ جیون ہو جاتا ہے
انتظار کی سولی پہ جو بھی چڑھتا ہے
زندگی سے اس کا گزارا بڑا مشکل ہو جاتا ہے
یہ کڑوا گھونٹ ہے اسے پینا مشکل ہو جاتا ہے
یہ ہجر کا دوسرا نام ہے راستہ بدل کے ستاتا ہے
انتظار بڑا ہی ڈاہڈا ہے جان نکال لے جاتا ہے
محبت کی خوبصورتی کو بے رنگ کر ڈالتا ہے
خواب سہانے سارے روند ڈالتا ہے
یہ انتظار بھی کیا چیز ہے
زندگی میرے سنگ گزارتا ہے