بدن کا بوجھ لیے , رُوح کا عذاب لیے

 

بدن کا بوجھ لیے , رُوح کا عذاب لیے


بدن کا بوجھ لیے , رُوح کا عذاب لیے



کدھر کو جاؤں ، طبیعت کا اِضطراب لیے؟؟


جلا ھی دے نہ مجھے ، یہ جنم جنم کی پیاس

ھر ایک راہ کھڑی ھے ، یہاں سَراب لیے


یہی اُمید کہ ، شاید ھو کوئی چَشم براہ 

چراغ دِل میں لیے ، ھاتھ میں گلاب لیے


عجب نہیں کہ ، میری طرح یہ اکیلی رات 

کسی کو ڈُھونڈنے نکلی ھو آفتاب لیے۔

 

سِوا ھے شب کے اندھیروں میں ، دِن کی تاریکی

گئے وہ دِن ، جو نِکلتے تھے آفتاب لیے۔


کسی کے شہر میں ، مانندِ برگِ آوارہ

پھرے ھیں کُوچہ بہ کُوچہ ، ھم اپنے خواب لیے۔


کہاں چلے ھو ، خیالوں کے شہر میں ثروت

گئے دنوں کی ، شِکستہ سی یہ کتاب لیے۔۔۔


ثروت حُسین