بدن کا بوجھ لیے , رُوح کا عذاب لیے
کدھر کو جاؤں ، طبیعت کا اِضطراب لیے؟؟
جلا ھی دے نہ مجھے ، یہ جنم جنم کی پیاس
ھر ایک راہ کھڑی ھے ، یہاں سَراب لیے
یہی اُمید کہ ، شاید ھو کوئی چَشم براہ
چراغ دِل میں لیے ، ھاتھ میں گلاب لیے
عجب نہیں کہ ، میری طرح یہ اکیلی رات
کسی کو ڈُھونڈنے نکلی ھو آفتاب لیے۔
سِوا ھے شب کے اندھیروں میں ، دِن کی تاریکی
گئے وہ دِن ، جو نِکلتے تھے آفتاب لیے۔
کسی کے شہر میں ، مانندِ برگِ آوارہ
پھرے ھیں کُوچہ بہ کُوچہ ، ھم اپنے خواب لیے۔
کہاں چلے ھو ، خیالوں کے شہر میں ثروت
گئے دنوں کی ، شِکستہ سی یہ کتاب لیے۔۔۔
ثروت حُسین