تخم غم کا ہے جسے بونے میں ، رکھی ہوئی ہے 

آنکھ مصروف ابھی رونے میں رکھی ہوئی ہے


نیند اک اور ہے میں جس کا تمنائی ہوں

یہ کوئی اور مرے سونے میں رکھی ہوئی ہے


یہ معمہ تو کھلا مجھ پہ بڑی دیر کے بعد

مری پہچان مرے کھونے میں رکھی ہوئی ہے 


تو اسے راکھ نہ کر دے کہیں اوجھل ہو کر

میری دنیا تو ترے ہونے میں رکھی ہوئی ہے 


عشق وہ بوجھ ، اترنے میں نہیں ہے اتنی 

جتنی تاثیر اسے ڈھونے میں رکھی ہوئی ہے 


اور تو کچھ نہیں رکھا میرے دل میں احمد 

اک ملاقات کسی کونے میں رکھی ہوئی ہے


(آفتاب احمد)

Kamlii