دل لے چلا ہے باندھ کے دلبر کے روبرو 

جاتا ہے اک اسیر ستمگر کے روبرو 


حاصل ہوئی بھی عقلِ فلاطوں اگر تو کیا 

چلتی نہیں کسی کی مقدر کے روبرو 


داغ دہلوی