پیر ساکن ہیں دشت چلتا ہے

ہجر دیوانگی میں ڈھلتا ہے


شور کتنا بھی ہو ہواؤں کا

خامشی سے چراغ جلتا ہے


روشنی آگئی تخیل میں

کون احساس میں پگھلتا ہے


گھر بنایا ہے اس نے شیشے کا

بات کرتے ہوئے سنبھلتا ہے


پھر کسی شہر کا نہیں ہوتا

جو ترے شہر سے نکلتا ہے


تھک گئی رات بھی جدائی کی

عمر بھر کون ساتھ چلتا ہے


بات کرنا مُحال ہے نیلمؔ

حرف چپ ہیں سوال جلتا ہے


نیلم بھٹی