زندگی وقفِ خمِ گیسوئے حالات تو ہے

زندگی وقفِ خمِ گیسوئے حالات تو ہے

 زندگی وقفِ خمِ گیسوئے حالات تو ہے

اپنی قسمت میں سحر ہو کے نہ ہو، رات تو ہے


ورنہ یُوں راس نہ آتے مجھے ویراں لمحے

سوچتا ہُوں کہ ترے غم میں کوئی بات تو ہے


اس لئے دار کی ٹہنی پہ بھی خاموش ہُوں میں

خامشی کچھ بھی نہ ہو مقتلِ نغمات تو ہے


تجربہ کچھ بھی ہو دل اُس سے بہل جائے گا

ایک لمحے کو سہی اُن سے ملاقات تو ہے


اے زمانے تری تجدید بجا ہے، لیکن

تو بھی منجملہِ ارباب روایات تو ہے


وقت کے جبر نے بخشے ہیں کئی زخم مگر

آدمی منتظرِ روزِ مکافات تو ہے


کیوں نہ اِس سے میں سجا لُوں غمِ ہستی مُحسن

میرے اشعار میں کچھ عکسِ غمِ ذات تو ہے

محسن نقوی